08:04 pm
پاکستانی ماہرین نے پھلوں کو کھولے بغیر مٹھاس بتانے والے نظام تیار کرلیا

پاکستانی ماہرین نے پھلوں کو کھولے بغیر مٹھاس بتانے والے نظام تیار کرلیا

08:04 pm

کراچی: پاکستانی سائنسدانوں کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت (آرٹفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی) اور بصری خواص کی بنا پر نارنگی اور کینو جیسے سِٹرس پھلوں کو کھولے بغیر ان کی مٹھاس معلوم کرنے کا ایک طریقہ وضع کیا ہے۔ یہ نظام 80 فیصد درستگی کے ساتھ ان مٹھاس کی پیشگوئی کرسکتا ہے۔ نیشنل یونیورستی برائے سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) کے قومی مرکز برائے روبوٹکس اور آٹومیشن سے
وابستہ ڈاکٹر عائشہ زیب کی نگرانی میں کئی جامعات اور انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے یہ اہم کام انجام دیا ہے جس میں نارنگیوں اور اس سے وابستہ پھلوں کو نقصان پہنچائے بغیر اس کا ذائقہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ انفراریڈ روشنی سے پھلوں کا تعین پہلے مرحلے میں ماہرین نے ضلع چکوال کے ایک فارم سے موسمبی، سرخ نارنگی اور مٹھے کے 92 پھل توڑے۔ ان پھلوں کا چھلکا اوسط 6 ملی میٹر موٹا تھا۔ ہرنمونے کی دونوں جانب دائرے میں نشان لگائے گئے اور ایک دستی اسپیکٹرومیٹر(طیف پیما) سے عین دائروں والی جگہ سے ہر پھل کا طیف (اسپیکٹرم) معلوم کیا گیا۔ اس کے لیے تجارتی طور پر دستیاب ایف 750 طیف پیما استعمال کیا گیا تھا جو قریب زیریں سرخ (نیئرانفراریڈ) روشنی خارج کرتا ہے۔ یہ روشنی پھل کے اندر جاتی ہے اور وہاں سے منعکس ہوکر لوٹتی ہے اور یوں طیف کا ایک پیٹرن بنا جسے نوٹ کرلیا گیا۔ اس طرح معیاربندی (کیلبریشن) میں 64 پھل استعمال کئے گئے جبکہ 28 پھل پیشگوئی کے لیے استعمال کئے گئے اور ان دونوں میں ہی اسپیکٹرومیٹر کو بطور فروٹ میٹر استعمال کیا گیا۔ لیکن پہلے یہ جان لیجئے کہ طیف نگاری (اسپیکٹرواسکوپی) کیا ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے؟ ہرجاندار اور بے جان شے روشنی جذب کرتی، خارج کرتی ہے یا منعکس کرتی ہے۔ اس روشنی سے کسی شے کا احوال معلوم کرنا طیف نگاری ہے جو اب بے حد کارآمد عمل بن چکا ہے۔ لیکن ٹھہریئے کہ ہماری آنکھ طیف یا ریڈی ایشن (اشعاع) کا بہت ہی معمولی حصہ دیکھ سکتی ہے جسے مرئی روشنی یا وزیبل لائٹ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایکس رے، انفراریڈ اور الٹراوائلٹ وغیرہ جیسے گوشے یکساں طورپراہمیت رکھتی ہیں لیکن ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ روزمرہ زندگی میں اسپیکٹرواسکوپی ہمیں دماغ کی معمولی سی رسولی سے آگاہ کرتی ہے تو ساتھ میں لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر موجود کسی کہکشاں کا احوال بھی بتاتی ہے۔ اگرچہ پھلوں کا معیار معلوم کرنے میں طیف نگاری کا استعمال برسوں سے جاری ہے، تاہم پاکستانی سائنسدانوں نے اس سے مقامی نارنگیوں کی مٹھاس معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوم اس طریقے میں براہِ راست مٹھاس معلوم کرنے میں کامیابی ملی ہے جو ایک اہم پیشرفت بھی ہے۔ روایتی کیمیائی اور حسی تجزیہ سائنسی طور پر سینکڑوں منفرد کیمیکل مل کر کسی پھل کو ذائقہ بخشتے ہیں۔ لیکن عام طور پر برکس ایک ایسا پیمانہ ہے جس میں کسی پھل میں موجود مختلف اقسام کی شکروں کی مقدار دیکھی جاتی ہے۔ آم ہو یا کینو، اسی مٹھاس کی بہتات پر قابلِ نوش قرار پاتے ہیں ۔ لیکن دوسری جانب نارنگی وغیرہ میں کھٹے پن کی پیمائش کے لکے دیکھا جاتا ہے کہ اس میں ٹائٹریبل ایسیڈٹی (ٹی اے) کی مقدار کتنی ہے۔ یہ پیمانہ کسی پھل میں سِٹرک ایسڈ کی مقدار بتاتا ہے۔ سائنسدانوں نے پہلے این آئی آر اسپیکٹرواسکوپی سے پھلوں کے نمونوں کی پیمائش کرکے ریڈنگ حاصل کی۔ اس کے بعد روایتی کیمیائی اور چکھنے کے عمل سے برکس، ٹی اے اور پھل کی مٹھاس (زبان کے ذریعے) معلوم کی گئی تاکہ اسے حوالہ جاتی (ریفرنس) ڈیٹا کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ اس بار پھل کو اسی نشان زدہ دائروں سے کاٹا گیا جہاں سے پہلے اسپیکٹرم لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسی مقام سے پھلوں کو کاٹا گیا اور گودا نکال کر تجربہ گاہ میں اس کی کیمیائی پیمائش کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی رضاکاروں کو بطور جج بنایا گیا تاکہ وہ اسے چکھ کر پھیکا، میٹھا اور زائد میٹھا ہونے کی درجہ بندی کرسکیں۔ یوں انسانی ذائقے کی بنیاد پر بھی پھلوں کو تقسیم کیا گیا۔