12:47 pm
اللہ کے بندوں کے پسندیدہ اوصاف

اللہ کے بندوں کے پسندیدہ اوصاف

12:47 pm

(گزشتہ سے پیوستہ)
اب آگے پھر عبادالرحمن کے کچھ اوصاف کا ذکر آرہا ہے۔’’اور وہ لوگ جو جھوٹ پر موجود نہیں رہتے‘‘
 ’’اور جب وہ کسی لغو کام پر سے گزرتے ہیں تو با وقار انداز سے گزر جاتے ہیں۔‘‘
یعنی وہ کسی ایسے معاملے میں نہیں پڑتے جس کی بنیاد جھوٹ پر ہو یا کسی خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا مہم ہو بلکہ وہ ہر قسم کے غلط اور لغو کام سے دور رہتے ہیں ۔کھیل کود ،
تماشا ہو رہا ہو تو بڑے وقار سے وہاں سے گزر جاتے ہیں ۔ 
 ’’اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرپڑتے۔‘‘
یعنی جب ان کے سامنے قرآن کی آیات تلاوت کی جائیں تو وہ ان میں غور وفکر کرتے ہیں اور تدبر سے کام لیتے ہوتے آیات قرآنی سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور اس سے بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔
 ’’اور وہ لوگ کہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطافرما‘‘ ’’اور ہمیں متقیوں کا امام بنا!‘‘
اس دعا کا اصل مفہوم یہ ہے کہ عبادالرحمٰن یعنی اللہ کے پسندیدہ بندے جو راستہ علی وجہ البصیرۃ اپنے لیے اختیار کرتے ہیں ، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد بھی اسی راستے پر چلے ۔ ظاہر ہے جس سے محبت ہوگی تو انسا ن چاہے گا کہ اس کا مستقبل بھی اچھا ہولہٰذا اسی لیے عبادالرحمن اپنی اولاد کے لیے یہ دعا کرتے ہیں ۔قیامت کے دن کے حوالے سے بہت سے احوال قرآن مجید اور احادیث میں آئے ہیںکہ وہاںپر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ رشتہ دار بھی سامنے ہوں گے، دوست بھی ہوں گے اور عام حالت تو یہ ہوگی کہ سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی اور جو مجرم اور گناہ گار ہوں گے انہیں پتا ہو گا کہ جو کچھ دنیا میں ہم نے کیا ہے اب اس کا انجام کیا ہونے والا ہے لہٰذا وہ چاہیںگے کہ ہمارے بیوی بچوں کو بھی ہمارے گناہوں کے فدیے کے طور پر قبول کرکے جہنم میں جھونک دیا جائے اور ہم کسی طرح بچ جائیں ۔لیکن جو صاحب ایمان ہیں اور خاص طور پر جو عبادالرحمن ہیں ان کی تو آج سے ہی یہ خواہش ہو گی کہ ہماری اولاد اور ہماری بیویاں جن سے ہم محبت کرتے ، وہ بھی قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہی کامیابی کے مراحل طے کر کے جنت میں جائیں اور یہ بھی خواہش ہوگی کہ جنت میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں اکٹھا رکھ دے۔ یہ خواہش فطری ہے اور یقینی طور پر ہوگی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کی یہ خواہش بھی پور ی کردے گا۔ اس لیے کہ عبادالرحمن اپنی اولاد کے لیے اتنی دردمندی سے دعا کرتے ہیں تو لازماً اپنی اولاد کی تربیت بھی قرآن و سنت کے مطابق کرتے ہیں ۔چنانچہ قرآن مجید کے 27ویں پارے میں یہ بشارت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت میں اہل ایمان اور ان کی نیک آل اولاد کو اکٹھا کر دے گا ۔
 ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر کی جزا میں بالاخانے ملیں گے‘‘’’اور ان میں ان کا استقبال کیا جائے گا دعائوں اور سلام کے‘ساتھ۔‘‘
عبادالرحمن کے سارے کردار پر اگر کوئی ایک لفظ منطبق کیا جائے تو وہ ہوگا صبر والی زندگی ۔اسی کے اندر عبادالرحمٰن کے سارے اوصاف آجاتے ہیں ۔ کیونکہ گناہوں سے بچنا بھی صبر ہے ، دین پر استقامت اور دینی فرائض اور دینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا بھی صبر ہے ۔ دین کے راستے میں مشکلات ، سختیوں اور تکالیف کو تحمل سے برداشت کرنا بھی صبر ہے۔گویا ایک بندۂ مومن کی جو مومنانہ زندگی ہے اس کا جامع عنوان صبر ہے اور اس صبر کا پھل یہ ہے کہ :
 ’’وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ بہت ہی عمدہ جگہ ہے مستقل قیام کے لیے بھی اور تھوڑی دیر ٹھہرنے کے لیے بھی۔‘‘
یعنی وہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جو ہر اعتبار سے اعلیٰ ترین مقام ہے ۔
’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ میرے رب کو تمہاری کوئی پروا نہیں ‘اگر نہ ہوتا تمہیں پکارنا۔‘‘
’’اب جبکہ تم نے جھٹلادیا ہے تو عنقریب یہ (عذاب تمہیں)چمٹ کر رہے گا۔‘‘
اس آخری آیت میں مشرکین کے لیے انتباہ ہے جبکہ اس سے قبل عبادالرحمن کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسی راستے پر گامزن فرمائے آمین!