12:20 pm
تم کیسے مسیحا ہو؟

تم کیسے مسیحا ہو؟

12:20 pm

نوازشریف جیل جائے یا زیست سے رہائی پا جائے، زندان میں سسکیاں لے یا اقتدار کے ایوانوں میں مسکراہٹیں بکھیرے، زرداری تختہ دار پر لٹکے یا عمران خان وزارت عظمیٰ کا قلمدان اپنے قبضے میں کر لے۔ سیاست کو آگ لگے،
نوازشریف جیل جائے یا زیست سے رہائی پا جائے، زندان میں سسکیاں لے یا اقتدار کے ایوانوں میں مسکراہٹیں بکھیرے، زرداری تختہ دار پر لٹکے یا عمران خان وزارت عظمیٰ کا قلمدان اپنے قبضے میں کر لے۔ سیاست کو آگ لگے، جمہوریت کا جنازہ اُٹھے، آمریت زندہ ہو یا ڈالر پھانسی کے پھندے پر لٹک جائے۔ مجھے اِس سے کیا لگے؟ میرے بچے تو تھر کے صحرائوں میں بِلک بِلک کر مر رہے ہیں۔ ننھے منے فرشتے موت کا جھولا جھول رہے ہیں۔ درد کا موسم تھر کے صحرائوں میں آکر یوں ٹھہر گیا ہے جیسے یہ اُس کے باپ کی جاگیر ہو؟
یہ ایک باپ کا نوحہ ہے۔ یہ ایک ماں کا ماتم ہے جو تھر کے صحرائوں میں سینہ کوبی پر مجبور ہے۔ آج بھی سول ہسپتال مٹھی میں کئی بچے زیر علاج ہیں اور تھرپارکر کے سینکڑوں ننھے فرشتے غذائی قلت کے باعث موت کی آغوش میں اُتر چکے ہیں۔ مائوں کی گودیں اُجڑ گئی ہیں۔ بے بسی کی آنکھوں سے اشک رواںہیں۔سسکیاں ہیں۔ آہیں ہیں۔ قبریں ہیں، ننھی مُنی قبریں …یہ قبریں یہ بے بسی کی قبریں۔ یہ لاچارگی کے ڈھیر۔ یہ بھوک کے اصطبل، یہ پیاس کے صحرا جہاں مسکان کانچ کی چوڑیوں کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر زمین سے زیرِ زمین دفن ہو جانے پر مجبور ہے۔ یہاں خوشیوں کے پائوں میں بیڑیاں ہیں، مسرتوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ سانسیں پابند سلاسل ہیں اور دوسری طرف جمہوریت کے میدان میں سیاست رقص کناں ہے۔ کوئی جلسے کر رہا ہے۔ کوئی جلوس نکال رہا ہے۔ کوئی ووٹ کے تقدس کا رونا رو رہا ہے تو کوئی ووٹر کی عظمت کا پرچارک بنا ہوا ہے۔ تھرپارکر کے صحرائوں میں موت کا کھیل برسوں سے جاری ہے۔ جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پڑ کر کبھی اِس بستی کے بسنے والوں پر توجہ نہیں دی۔ مجھے افسوس ہے کہ آج تک تھر کے صحرا سے یہ خبر نہیں آئی کہ اس صحرا میں سے کسی صدر پاکستان کے بیٹے کی لاش ملی ہے۔ کسی وزیراعظم کے بیٹے کا جنازہ اُٹھا ہے، کسی وزیراعلیٰ یا صوبے کے کسی گورنر کی بیٹی غذائی قلت کے باعث دم توڑ گئی ہے۔ کسی جاگیر دار کا لخت جگر لحد میں اُتر گیا ہے۔
قارئین! کیا کبھی آپ نے یہ سُنا ہے کہ حسین نواز نے گزشتہ روز کھانا نہیں کھایا، آصفہ بھٹو بھوکی سوئی ہے، حمزہ شہباز نے پیاس کے گھونٹ پئے ہیں۔ بلاول بھٹو غذائی قلت کے باعث شدید بیمار ہیں۔ نہیں قارئین نہیں۔ یہ خبر آپ نے کبھی نہیں سُنی ہو گی۔ کیونکہ اِن سیاستدانوں کو جب بھی لگی ہے جمہوریت کی بھوک لگی ہے۔ اِن کے بچے اقتدار کے پیاسے رہتے ہیں۔ اِن کی خوراک تخت ہے۔ ہیرے ہیں، جواہرات ہیں۔ اِن کا لباس پروٹوکول ہے۔ اور مرنے کے لئے ہم عوام ہیں۔ آج تک کسی  نے یہ نہیں سوچا کہ تھر کے صحرائوں میں مرنے والے بچے بھی ہمارے ہی لختِ جگر ہیں۔ اے کاش کہ آصف علی زرداری کو اُن بچوں کے روپ میں بلاول بھٹو دکھائی دیتا۔ اے کاش کہ میاں نوازشریف کو تھر میں سسکتی ہوئی مریم نواز نظر آتی، اے کاش کہ عمران خان کو تھر میں بِلکتا ہوا سلمان خان دِکھائی دیتا۔ کاش کہ شہباز شریف کو حمزہ شہباز موت کے منہ میں جاتا ہوا نظر آتا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ صحرائوں اور سمندروں کی ابتداء اور اختتام نہیں ہوتا اور نہ ہی اِن کی کوئی سرحد ہوتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے پرندوں کی اڑان، بادل اور خوشبو کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ شائد! یہاں موت کی بھی کوئی حد نہیں ہوتی۔
تھر کا صحرا  کلو میٹرز میں پھیلا ہوا ہے۔ تھر کے شمالی حصے میں ریت کے ٹیلوں کا حجم اتنا بڑا نہیں ہے البتہ جنوب میں خاص کر تحصیل مٹھی میں اِن ریت کے ٹیلوں کا حجم بہت بڑا ہے، سندھ کے چوتھے بڑے شہر میرپور خاص سے چار گھنٹے کے فاصلے پر دنیا کے نویں بڑے صحرا، صحرائے تھر کی شروعات ہوتی ہیں۔ اس صحرا کا ہیڈ کوارٹرز مٹھی شہر ہے۔ چاروں طرف ریت کے ہیبت ناک ٹیلوں سے گھرا ہوا یہ شہر آج کل افریقہ کا بھوک اور افلاس زدہ علاقہ محسوس ہوتا ہے۔ ریت کے بڑے بڑے خوفناک ٹیلے دیکھتے ہی انسان کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ دور دور انسان تو درکنار جاندار نام کی کوئی چیز بھی نظر نہیں آتی۔ کمزور دل انسان کو اگر اس صحرا کے سناٹے میں کھڑا کر دیا جائے تو تیز ہوائوں کی خوفناک آواز سے اس کا دل پھٹ جائے اور وہ ہمیشہ کے لئے ان خوفناک آوازوں سے چھٹکارا حاصل کر لے۔ملکی خزانے کے کسی چور لٹیرے مجرم کو اگر سخت اذیت ناک سزا دی جائے اور اسے عبرت کا نشان بنانا مقصود ہو تو اسے تھر پارکر کی ریت پر چھوڑ دیا جائے، وہ مجرم سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دے گا، لیکن اسے مدد کے لئے کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔
 اس صحرا میں زہریلے بچھو اور انتہائی خطرناک سانپ بلوں میں چھپے رہتے ہیں جو اپنے شکار کو آسانی سے نشانہ بنا کر اپنے بل میں دوبارہ سکون سے جا کر آرام کرتے ہیں۔ پاکستان تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی، میٹرو بس، میٹرو ٹرین کا حامل ہو چکا ہے لیکن یہاں بسنے والے لوگ آج بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کے لئے لالٹین کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ اس ہیبت ناک اور پراسرار صحرائے تھر میں کچھ بھوکے اور پیاسے لوگ آج بھی زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم، زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہاں پینے کے تازہ پانی کا واحد ذریعہ کنوئیں ہیں جن کا پانی صحت کے لئے مضر ہے۔ یہاں انسان اور حیوان ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہاں بسنے والے لوگوں کا ذریعہ معاش بارش ہے یا پھر مال مویشی ہیں۔ یہاں کے مرد سخت قحط سالی میں اپنے مویشی لے کر سرسبز و شاداب علاقوں کی طرف نکل جاتے ہیں تا کہ ان کی زندگی کا متاع بچ جائے چاہے وہ خود موت کا شکار ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ باقی رہی عورتیں اور بچے تو وہ جانیں اور ان کا خدا جانے۔یہاں موت کا رقص جاری و ساری ہے۔ مائیں جگر گوشوں کو قبروں میں اتارنے پر مجبور ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ آگ لگے سیاست کو، جنازہ اُٹھے جمہوریت کا۔ یہ صدائیں جب میری روح پر بجلی بن کر گریں نے تو میں نے تھرکتے ہاتھوں میں کپکپاتا ہوا قلم پکڑ کر کاغذ کا سینہ سیاہ کرنا شروع ر دیا۔ مجھے اُمید ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس، وزیراعظم عمران خان ، اپوزیشن لیڈرمیاں شہباز شریف ،آصف علی زرداری ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ  اِس موت کی وادی کا دورہ بھی ضرور ریں گے  اور اُن ننھی قبروں کے مکینوں کے لئے دُعائے فاتحہ کریں نہ کریں مگر اُن مکینوں کی موت کے ذمہ داروں کے خلاف ضرور اپنے قلم کو جنبش دیں گے۔

 

تازہ ترین خبریں