01:13 pm
گریٹراسرائیل کی جانب سفر

گریٹراسرائیل کی جانب سفر

01:13 pm

(گزشتہ سے پیوستہ)
واقعات کی ترتیب کچھ یوں بیان کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے قیامتِ صغری یابہت بڑی اورخوفناک جنگ کہاجاتاہے۔عام فہم الفاظ میں شائداسے تیسری عالمی جنگ کہاجاسکتاہے جس کامیدان جنگ اسرائیل میں مجیدونام کی ایک پہاڑی اوراس کے اردگردکے علاقہ کوبتایاجاتا ہے۔ مسیحی اوریہودی بائبل کی کتاب مکاشفات سے اس قیامت صغریٰ کہلانے والی جنگ کی سندلاتے ہیں جس کے بعدگریٹراسرائیل یاوسیع تراسرائیل کا مرحلہ آئے گا۔مسجداقصی اور قب الصخرہ کاانہدام کرنے کاملعون منصوبہ زیرغورہے۔ صخرہ چٹان کوکہتے ہیں۔قبہ الصخرہ وہ سنہری گنبد والی عمارت ہے جو اکثرتصاویرمیں دیکھی جاسکتی ہے۔مسلمانوں کیلئے یہ دونوں مقدس مقامات یروشلم میں ایک پہاڑی پرواقع ہیں۔اس پہاڑی کو یہودی’’ٹیمپل مائونٹ‘‘ یامعبدکی پہاڑی کے نام سے پہچانتے تھے۔
 حضرت سلیمان علیہ اسلام نے اللہ کا گھر یامسجدجسے یہودی معبدکہتے ہیں،اس پہاڑی پرتعمیر فرمایا تھا۔ نبی آخرالزماں ﷺ جب بیت المقدس سے صدر المنتہی کیلئے تشریف لے گئے، آپ کابراق اسی چٹان سے آسمانوں کی جانب روانہ ہواتھا،عبدالملک بن مروان نے اس چٹان پرایک گنبدبنوایاجسے قب الصخرہ کہتے ہیں۔اردن کے شاہ حسین مرحوم نے اس گنبد پرسونے کی چادر چڑھائی تھی جس کا وزن لگ بھگ 35 ٹن بتایاجاتاہے اوریہودیوں نے یہ ہرزہ سرائی کی تھی کہ یہ سونا ایک دن ہمیں نئے معبد کیلئے کام آئے گا۔یہ و ہی ٹیمپل مائونٹ ہے جس کے نام پرصلیبی جنگجو’’ٹیمپل نائٹ‘‘کے نام سے مشہور ہوئے یعنی حضرت سلیمان کی پہاڑی کی حفاظت کیلئے لڑنے والاسالار1099ء میں صلیبیوں کایہ مقدس جنگوں کا سلسلہ شروع ہواتھا۔ قبہ الصخرہ کے ساتھ مسجدعمرؓ تھی،وہاں مسجداقصیٰ ہے۔ مسلمانوں کی لاعلمی کاعالم تویہ ہوچکاہے کہ انہیں قب الصخرہ اور مسجد اقصیٰ میں فرق کابھی علم نہیں۔عمومی طورپر سنہری گنبد والی عمارت کوہی مسجد اقصی تصورکرلیاجاتاہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں۔ یہ بھی ایک گہرادکھ ہے کہ جن وارثوں کواپنے اثاثوں کا ہی علم نہ ہو،وہ ان کے تحفظ اوردفاع کیلئے کیا کرسکیں گے۔
مصراورترکی پہلے ہی اسرائیل کوتسلیم کرچکے ہیں۔پاکستان،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور دیگرخلیجی ممالک جواسرائیل کے بارے میں سخت مؤقف رکھتے ہیں ان میں سے یو اے ای اوربحرین بھی ٹرمپ کے ہاتھ پربیعت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرچکے ہیں اوردیگردس قطارمیں باری کاانتظارکر رہے ہیں۔ان ممالک کے بارے میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسرائیل سے تعلقات کی خبریں آتی ہی رہتی ہیں۔ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے سے پہلے ان حکمرانوں سے رابطہ قائم کیاتھا۔عالم اسلام کے ان حکمرانوں کوفون کیے تھے جوالقدس کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے رہتے ہیں۔سعودی عرب کے شاہ سلمان، مصرکافرعون السیسی،فلسطین کا صدر محمود عباس کوبتایا گیاکہ وہ چند گھنٹے بعدکیااعلان کرنے والاہے۔اس کے باوجودان حکمرانوں نے نامردوں جیسی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ٹرمپ کے اعلان کے بعد ان کے بیانات بعدازمرگ واویلے سے زیادہ کچھ نہیں۔امریکہ  اور اس کی پیروی میں عالم اسلام کے حکمرانوں نے بیت المقدس کو صرف فلسطینیوں کا مسئلہ بنادیا ہے۔ آج وہ تنہااس کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پورا عالم اسلام اور ان کی افواج بیت المقدس کی آزادی کیلئے متحرک نہ ہوں۔مسلم افواج کبھی حرکت میں نہیں آئیں گی جب تک یہ حکمران ان پرمسلط ہیں۔کفرملت واحدہ ہے اس میں کوئی شک نہیں اوراس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کے حکمران کفرکی اس ملت واحدہ کے ساتھ ہیں ۔بیت المقدس کی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک مسلم ممالک کے عوام ان حکمرانوں سے آزادی حاصل کریں اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر اپنی افواج کے ساتھ حرکت میں آئیں۔
 ان تمام تفصیلات سے یہ بتانامقصودہے کہ1948ء سے لے کرتاحال امریکہ اسرائیل کامعاون ومددگاراورمسلمانوں کااولین دشمن رہا ہے لیکن اس کے باوجودعالم اسلام کے حکمران پالتو کتوں سے بدترامریکہ کے وفا داررہے ہیں۔1967ء میں اسرائیل نے فلسطین کے بقیہ حصے پرقبضہ کرلیااوراس کے ساتھ ہی بیت المقدس بھی اسرائیل کے قبضے میں چلاگیا۔ اس جنگ اورفلسطین پرقبضے میں امریکا نے اسرائیل کی ہرممکن مددکی لیکن ہمارے حکمران اس وقت بھی امریکہ کے وفاشعاردوست تھے اورآج بھی ہیں۔اسرائیل کے ساتھ سمجھوتے میں بھی انہوں نے امریکاہی کوثالث تسلیم کیا۔پاکستان بھی کشمیرکے معاملے میں امریکہ کوثالث تسلیم کرنے پرہمہ وقت آمادہ رہتاہے۔اس حقیقت کے باوجودکہ ہندوستان کی تقسیم کے وقت سے امریکاکاپہلا انتخاب ہندوستان تھا اور افغان جنگ میں افغان اور پاکستانیوں کی بے تحاشہ قربانیوں کے بعدجب امریکہ واحد سپرپاوربن گیاتواس نے فوری طورپر بھارت کو گودمیں لے اسے نوازناشروع کردیا۔ پاکستان کوامریکہ بطورلیوربھارت کواپنی طرف راغب کرنے کیلئے استعمال کرتارہااوراسی بھارت کو افغانستان میں پاکستان کے خلاف کھلی دہشت گردی کیلئے استعمال بھی کرتارہالیکن بالاآخر افغانستان سے نکلنے کیلئے بھی پاکستانی کندھااستعمال کرنے سے گریزنہیں کیا۔عرب ممالک کے حکمران اپنے عوام کویہ تاثر دیتے ہیں کہ امریکہ اسرائیل پردباؤ ڈال کراسے مقبوضہ علاقوں میں سے کچھ سے دستبردار ہونے پرآمادہ کرلے گاجس پروہ ایک آزاد ریاست کے قیام میں کامیاب ہو جائیں گے، مشرقی القدس جس کادارالحکومت ہوگا اورایساہی خواب ٹرمپ نے کشمیرکے بارے میں ثالثی کرنے کا ہمیں دکھایااور اسی آڑمیں مودی کو کشمیر میں 5 اگست2019 ء کوراست اقدام کااشارہ کردیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل کے اردگرد کمزور اسلامی ممالک اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے بے چین ہیں اورہم اپنے بیانات میں مودی کے مظالم کاتذکرہ کرکے ہی کشمیرکاسفیر بننے کادعویٰ کررہے ہیں۔ آخرمیں فلسطین اورموصل کی ماں کاایک گیت: 
ٹھہروٹھہرو۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ہم ہارے نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی ہمارے گھوڑوں کی ٹاپوں میں بڑادم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تمہیں اڑادیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ریت کے بگولوں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔ان شاء اللہ۔