12:55 pm
مولانا‘ پی ڈی ایم اور نواز شریف

مولانا‘ پی ڈی ایم اور نواز شریف

12:55 pm

بعض لکھاری لکھ رہے ہیں کہ یہ مولانا کے لئے بڑے ’’اعزاز‘‘ کی بات ہے کہ انہیں پی ڈی ایم کا سربراہ بنا دیا گیا... لیکن میرے نزدیک یہ پی ڈی ایم کے لئے بڑے ’’اعزاز‘‘ کی بات ہے کہ اس کی سربراہی  مولانا فضل الرحمن کر رہے ہیں... ’’مولانا‘‘ نہ تو حادثاتی سیاست دان ہیں ... اور نہ ہی ان کی سیاست گیٹ نمبر4کی مرہون منت رہی‘ مولانا کی سیاست نہ کسی فوجی گملے میں جوان ہوئی اور نہ ہی انہوں نے سیاست میں اعلیٰ مقام پانے کے لئے کسی گورے کے سفارتخانے پر دستک دی۔ وہ عناصر کہ جو مولانا کی سخت تقریروں اور پریس کانفرنسوں کے بعد ٹی وی سکرینوں پر بیٹھ کر بغلیں بجاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ  شائد مولانا کا بیانیہ فوج مخالف ہوچکا اور مولانا کے کارکن شائد اب کسی سے بھی سنبھالے نہ جاسکیں... ایک تجزیہ نگار مکارانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے یہ تاثر  دے رہے تھے کہ جیسے مولانا اور ان کے کارکن سیکورٹی اداروں سے ٹکرا جائیں گے... ایسے  فتنہ پرور عناصر کو میرا مشورہ ہے کہ وہ منہ دھو رکھیں‘ جہاں تک یہ خاکسار مولانا فضل الرحمن کو جانتا ہے... وہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض حصوں  کے سیاسی کردار کے حوالے سے ناراض ضرور ہیں... لیکن ان کا بیانیہ نہ پہلے کبھی فوج مخالف رہا‘ نہ آج فوج مخالف ہے اور نہ آئندہ ہوگا۔
یار لوگوں کا کہنا ہے کہ شریفوں نے مولانا کو پی ڈی ایم کی سربراہی سونپ کر  خود ’’پنجابی‘‘ کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے... جس دن مولانا کو گیارہ جماعتی سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کا سربراہ بنایا گیا عین اسی دن لاہور میں منعقدہ ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ن لیگی قائدین نے یہ کہا کہ ’’شہباز شریف کو گرفتار کرکے ’’ پنجابیوں‘‘ کی عزت پر ہاتھ ڈالا گیا۔‘‘ ن لیگ پنجاب میں پنجابی کارڈ کھیلنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے... پاک فوج کے حوالے سے  بھی یہ بات مشہور ہے کہ یہ پنجاب کی فوج ہے (حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے) نواز شریف ’’مولانا‘‘ کے دبائو پر پنجابی کارڈ استعمال کرکے ایک دفعہ پھر ’’ڈیل‘‘ کرنے میں کامیاب ہو جائیں ‘ جبکہ  ’’مولانا‘‘ پی ڈی ایم کی سربراہی کے باوجود اس ڈیل کو ہونے سے روک نہ پائیں گے‘ یار لوگوں کی باتوں سے اس خاکسار نے  یہ جو نتیجہ اخذ کیا ہے... یہ کس حد تک درست ہے‘ آنے والے ہفتوں میں ہر چیز کھل کر سامنے آجائے گی... نواز شریف کو لندن جا کر اب ایک دفعہ پھر انقلابی بننے کی سوجھی ہے... وہ لندن کی سرزمین پر بیٹھ کر جو مرضی کہتے رہیں... اداروں پر جتنے مرضی  الزامات عائد کرتے رہیں میرے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
پھر نواز شریف سے سوال تو بنتا ہے کہ آپ تین دفعہ وزیراعظم صرف اپنے کاروباروں کو پھیلانے اور مالی مفادات کے تحفظ کے لئے بنے تھے؟ تین دفعہ کا غلام وزیراعظم ... اپنے اقتدار کے ہزاروں دنوں میں 22کروڑ عوام کو دھوکا کیوں دیتا رہا؟ اقتدار کے موسم میں ہر سال یوم آزادی پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کے بعد قوم کی آزادی کا پیغام کیوں سناتا رہا؟ یہ کیا بکواس ہے کہ جب اقتدار میں رہو‘ تو عیاشیاں کرو‘ قومی خزانے پر گلچھرے اڑائوں‘ کاروبارو ں کو افلاک تک پھیلانے کے لئے سرکاری عہدوں کا استعمال کرو‘ پاکستان کو اپنی اولادوں‘ بھائیوں‘ بیٹیوں‘ دامادوں اور سمدھیوں کو چراگاہ بنا ڈالو... اور جب اقتدار سے نکلو تو وطن میں نہیں... بلکہ انگریزوں کی سرزمین پر بیٹھ کر غلامی اور آزادی میں فرق سمجھانا شروع کردو... اگر تین دفعہ وزیراعظم رہنے والا... اپنے آپ کو حکمران ہونے کے باوجود ’’غلام‘‘ سمجھتا رہا۔ تو پھر 22کروڑ عوام کیا ہوئے... آزادیا غلام؟
مجھے یاد ہے کہ جس وقت ملعون سلمان تاثیر کے قاتل غازی ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی...تو روزنامہ اوصاف کراچی کے اجراء کی افتتاحی تقریب کراچی کے ایک بڑے ہوٹل میں ہو رہی تھی... اس تقریب کی صدارت مولانا فضل الرحمن کر رہے تھے... جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف‘ اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی‘ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید‘ مفتی منیب الرحمن سمیت ملکی  سطح کی متعدد دیگر شخصیات بھی شریک تھیں۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید چیف ایڈیٹر روزنامہ اوصاف مہتاب خان کو اصرار کے ساتھ یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ اوصاف میں غازی ممتاز قادری کی پھانسی اور شخصیت کو بالکل کوریج نہ دیں... بلکہ ان کے جنازے کے اجتماع کا مکمل بائیکاٹ کریں... پرویز رشید تمام تر کوششوں کے باوجود چیف ایڈیٹر اوصاف  مہتاب خان کو رام کرنے میں مکمل ناکام رہے... روزنامہ اوصاف نے پوری ایمانی جرات کے غازی ممتاز قادری شہید کے شایان شان انہیں کوریج دے کر صحافتی اقدار کو سربلند رکھا۔
حالانکہ یہ وہ وقت تھا کہ جب میڈیا کی آزادی کے سارے مامے‘ چاچے حکومتی بارگاہ میںسجدہ ریز ہوئے... اور انہوں نے متحد ہو کر غازی ممتاز قادری کے جنازے کا مکمل بلیک آئوٹ کیا۔
بعد میں جب مجھے کیوں نکالا کی گردان عام ہوئی... اور پھر 2018ء کی انتخابی مہم شروع ہوئی... میں نے مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں  سے پوچھا کہ آپ کی حکومت نے غازی ممتاز قادری کو پھانسی کیوں دی تھی؟... انہوں نے اپنے اس جرم سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پھانسی تو فوج کے حکم  پر دی گئی تھی... اس خاکسار نے ان لیگی لیڈروں سے کہا تھا کہ پرویز رشید کہ جو میڈیا مالکان پر دبائو ڈال کر ان کے جنازے کی کوریج کا بلیک آئوٹ کروا رہے تھے... تو یہ کس کے حکم پر تھا... نواز شریف یا پھر فوج کے حکم پر؟ ان بے چاروں کے پاس  اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
مطلب یہ کہ فوج پر الزام لگانا پرویز رشیدوں اور نواز شریفوں کی پرانی عادت ہے‘ نواز شریف تین دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی ’’غلام‘‘ تھے وہ اگر سو دفعہ بھی وزیراعظم بن جائیں... تب بھی غلام ہی رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمن باقی سیاست دانوں سے کردار و عمل اور اخلاق میں اسی لئے تو برتر ہیں...  وہ جو بھی کہہ رہے ہیں... پاک سرزمین پر کھڑے ہو کر کہہ رہے ہیں... نہ وہ ملک چھوڑ کے فرار ہوئے... اور نہ ہی انہوں نے ایسا کوئی عندیہ دیا... بیڈ میڈیا کے جو  عناصر بغیر کسی ثبوت کے ان کی کردار کشی کے مشن پر گامزن ہیں... وہ جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں... اس وقت جو بھی نفرتوں کی آگ بڑھانے کی کوشش کرے گا... وہ ملک و قوم کا دشمن ہوگا۔



 

تازہ ترین خبریں