12:49 pm
ترک قوم اسلامی نصب العین کی چیمپئن

ترک قوم اسلامی نصب العین کی چیمپئن

12:49 pm

ترکوں کی تاریخ کا مطالعہ بڑادلچسپ ہے۔ ترکی میں خلافت عثمانیہ کی بنیادقبائلی سردار عثمان علی خان نے  رکھی جس کی نسبت سے ان کی حکومت کو عثمانیہ سلطنت کا نام دیا گیا۔1453ء میں سلطان محمد فاتح نے بھرپور لڑائی کے بعد بازنطینیوں سے قسطنطنیہ(استنبول) چھین لیا۔ اس کے حکم پر شہر کے مشہور گرجے کیتھیڈرل سینٹ صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا جہاں اس نے جمعہ کی پہلی نماز ادا کی۔ ترکی کے سلطان روئے زمین کے سب سے طاقتور حکمران بن گئے۔وسطیٰ یورپ میں وہ وی آنا تک پہنچ گئے۔ہنگری،یوگوسلاویہ، البانیہ، یونان، بلغاریہ اور رومانیہ ان کے قدموں تلے ڈھیر ہوگئے جو کئی صدیوں تک ان کے زیر تسلط رہے۔پورا شمالی افریقہ،مصر سے لے کرمراکش تک،مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک و علاقہ جات مثلاً سعودی عرب،عراق،اردن،شام،کویت،فلسطین،لبنان،یمن اور متحدہ عرب امارات موجودہ صدی کے آغاز تک ترکش ایمپائر میں شامل رہے۔اپنی وسعت،  شان و شوکت اور جاہ و جلال کے اعتبار سے خلافتِ عثمانیہ دنیا کی سب سے بڑی اور عظیم الشان سلطنت تھی جس کا پرچم بیک وقت دنیا کے تین براعظموں ایشیاء افریقہ اور یورپ پر لہراتا تھا۔اس دور کی کسی دوسری طاقت میں ترکوں کی بحری قوت سے ٹکرانے کی جرأت نہیں تھی۔خلافتِ اسلامیہ کی شمع سلطان سلیم
( 1512ء تا 1520) کے عہد سے لے کر 1922ء تک قریباً چار سو سال ترکوں کے پاس رہی۔یہاں تک کہ 1922ء میں موجودہ ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ترک بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے میدان جنگ میں شکستیں کھائی ہیں، مفتوحہ علاقے کھوئے ہیں، لیکن بحیثیت قوم دنیا کی کوئی طاقت انہیں مغلوب نہیں کر سکی۔پہلی جنگِ عظیم میں انہوں نے جرمنی کے اتحادی کی صورت میں حصہ لیا۔
1918ء میں جرمنی کو شکست ہوگئی تو ترکوں کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔مغرب کی اتحادی و استعماری طاقتوں نے استنبول پر قبضہ کر لیا اور سلطان محمد فاتح کی نقل کرتے ہوئے فرانسیسی جرنیل سفید گھوڑے پر سوار ہو کر شہر کے کو چہ و بازار سے یہ کہتے ہوئے گزرا کہ ’’میں ہی وہ موعودہ فرشتہ ہوں جس کے متعلق 1453ء میں بازنطینی سلطنت کی امداد کے لئے آنے کی بشارت دی گئی تھی لیکن میں کچھ لیٹ ہو گیا اور اب آیا ہوں ‘‘۔ مصطفیٰ کمال اتاترک نے یہ توہین آمیز منظر نم آلود نگاہوں کے ساتھ دیکھا۔انہوں نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ استنبول سے بھاگ چلنے اور آزادی کی جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ ایک جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز رانی کرتے ہوئے ترکی کے شمالی ساحل پر واقع سامسن کی بندرگاہ پر پہنچے۔کچھ عرصے بعد ان لوگوں نے سیوائے (sivas) کے مقام پر عبوری حکومت قائم کر لی۔مصطفی کمال کو اس کا چیئرمین بنایا گیا۔اس کے ساتھ ہی آزادی کے لئے ایک طویل اور جان گسل جدوجہد شروع ہو گئی۔دشمن کے جم غفیر کے مقابلہ میں بہت تھوڑے مجاہدین آزادی نے متعدد جارحانہ اور مدافعانہ جنگیں لڑیں، جن میں عورتوں نے بھی مردوں کے دوش بدوش حصہ لیا۔سپلائی وغیرہ کے زیادہ تر فرائض خواتین،بچوں اور بوڑھوں کے سپرد تھے جو جسمانی لحاظ سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔صحیح معنوں میں پوری قوم جنگ میں شریک تھی۔بھاری جانی نقصان اٹھانے کے بعد دشمن کی ہمت جواب دے گئی تو مصطفی کمال نے ترک قوم کے نام تاریخی فرمان جا ری کیا ،  جس میں کہا گیا تھا کہ: ’’ترک افواج تمہارا پہلا ہدف بحیرہ ٔ روم ہے‘‘۔ یہ بات بڑی حد تک درست تھی کیونکہ اسلام کے دوراولین کے نامور جرنیل حضرت عقبہ کی طرف جنہوں نے ساحل مراکش کے آخری کنارے پر پہنچنے کے بعد ہوا میں ہاتھ بلند کر کے رب ذوالجلال کے حضور میں فریاد کی تھی۔’’اے اللہ میں وہاں تک آ گیا ہوں،جہاں تک میرا گھوڑا مجھے لا سکتا تھا،اس سے آگے نہیں جا سکتا‘‘۔ 
ترک فوجوں نے بھی جو ویسے ہی جذبہ سے سرشار تھیں، اپنی پیش قدمی جاری رکھی جب تک کہ دشمن کے آخری سپاہی کو ترکی کی سرزمین سے مار بھگا کر بحیرہ ٔ روم پر قبضہ کر لیا۔جنگ آزادی میں ترکوں کی واضح کامیابی نے اتحادی طاقتوں کو مجبور کر دیا کہ ان کے ساتھ مستقل سمجھوتہ کے لئے مذاکرات کریں۔ ترکی کی موجودہ سرحدوں کا تعین اسی سمجھوتہ کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہیں اس سے زیادہ مل گیا جتنا کہ وہ چاہتے تھے۔اتحادی طاقتیں استنبول خالی کرنے اور عثمانی سلطنت کے یورپی صوبہ تھریس سے نکل جانے پر بھی آمادہ ہو گئیں ۔ترکوں کے ساتھ مفاہمت کرنے اور ان کے ساتھ پرامن معاہدہ کرنے کی غرض سے روس کی کیمونسٹ حکومت نے ترکی کے صوبے کارز  اور  اردہان واپس کر دئیے جو روسی فوجیوں نے سابقہ لڑائیوں میں چھینے تھے۔ اپنی سرحدوں کو محفوظ کرنے کے بعد نئی حکومت نے قوم کی تعمیرنو کا بیڑا اٹھایا۔ترک صدیوں سے اسلامی نصب العین کے چیمپئن اور علمبردار چلے آ رہے ہیں۔عثمانی خلافت کے زمانہ میں یہ تاثر عام پایا جاتا تھاکہ سلطان کو اپنی رعایا پر لامحدود اختیارات حاصل ہیں جبکہ عملی طور پروہ شرعی احکام کی حدود سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔اصل اقتدار علماء کی ایک کونسل کے ہاتھ میں تھا۔ہر فرمان پر شیخ الاسلام کی مہر کا ثبت ہونا لازمی تھاجس پر ترکی کے الفاظ ‘‘OLUR OR OLMAZ‘‘ کندہ تھے۔ا س کے معنی ہیں ’’کوئی کام ہو سکتا ہے یا نہیں ہو سکتا‘‘۔ دفتری زبان میں اس کا مفہوم ’’منظور ہے یا منظور نہیں ہے‘‘بنتا ہے۔حقیقت میں ان کی روزمرہ زندگی پر اسلامی قوانین کا گہرا اثرتھا۔مصطفی کمال اور ان کے رفقاء نے اس عمل کو الٹنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے تمام آمروں کی طرح اتاترک کی خواہش تھی کہ اس کے الفاظ کوقانون کا درجہ حاصل ہو جائے۔وہ کسی ایجنسی کو اپنے احکام میں کوئی تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ابتدائی قدم کے طور پر انہوں نے خلافت کا خاتمہ کر دیا۔آہستہ آہستہ بہت سی سیاسی اور معاشرتی اصلاحات نافذ کیں۔انہوں نے اس ’’چوغے‘‘ کو اتار کر پھینک دیا جو جنگ آزادی کے دوران اسلام کے چیمپئین کی حیثیت سے پہنے رکھاتھا۔ماضی و حال کے بہت سے حکمرانوں کی طرح اتاترک نے اسلام کو محض سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا۔جن دنوں وہ ترکی کو آزاد کرانے کے لئے اتحادیوں کے خلاف شجاعت کے جوہر دکھا رہے تھے برصغیر کے مسلمانوں نے چار لاکھ پائونڈ کی خطیر رقم چندہ کے طور پر جمع کرکے بھیجی تھی۔اس زمانہ میں یہ بہت بڑی رقم تھی اور ترک آج بھی شکریہ کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں ۔


تازہ ترین خبریں

ملک میں سردی سے پہلے ہی گیس کی قلت کا خدشہ

ملک میں سردی سے پہلے ہی گیس کی قلت کا خدشہ

حیدرآباد دکن میں موجود پاکستانی کرکٹ اسکواڈ کے کھانے کا مینیو بھی سامنے آگیا

حیدرآباد دکن میں موجود پاکستانی کرکٹ اسکواڈ کے کھانے کا مینیو بھی سامنے آگیا

گرمی سے پریشان نشئی کا انوکھا اقدام،اے ٹی ایم بوتھ لاک کرکے سو گیا

گرمی سے پریشان نشئی کا انوکھا اقدام،اے ٹی ایم بوتھ لاک کرکے سو گیا

ٹیکس اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس قائم،نگران وزیر خزانہ چیئرپرسن مقرر

ٹیکس اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس قائم،نگران وزیر خزانہ چیئرپرسن مقرر

نئی حلقہ بندیوں سے قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں کم ہو گئیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

نئی حلقہ بندیوں سے قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں کم ہو گئیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

عدالت نے ڈی سی اسلام آبادکی غیرمشروط معافی مستردکردی

عدالت نے ڈی سی اسلام آبادکی غیرمشروط معافی مستردکردی

عیدمیلاد النبی ﷺ پر لاہور سمیت ملک بھرمیں ابر رحمت برسنے کا امکان

عیدمیلاد النبی ﷺ پر لاہور سمیت ملک بھرمیں ابر رحمت برسنے کا امکان

’سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں‘؟ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

’سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں‘؟ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

’ پوتا پوتی پیسے گننے میں ہیرا پھیری کرتے تھے‘ 92 سالہ پردادی نے اسکول میں داخلہ لے لیا

’ پوتا پوتی پیسے گننے میں ہیرا پھیری کرتے تھے‘ 92 سالہ پردادی نے اسکول میں داخلہ لے لیا

توشہ خانہ  کیس  آصف علی زرداری  اور یوسف رضا گیلانی کو طلب کرلیا گیا

توشہ خانہ کیس آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو طلب کرلیا گیا

آشوب چشم کا پھیلاؤ، ڈرگ مافیا انسانی جانوں کا دشمن بن گیا

آشوب چشم کا پھیلاؤ، ڈرگ مافیا انسانی جانوں کا دشمن بن گیا

بیورو چیف اے بی این نیوز خالد جمیل  کی ضمانت  منظور کر لی گئی

بیورو چیف اے بی این نیوز خالد جمیل کی ضمانت منظور کر لی گئی

انسانی جا نوں سے کھیلنے والے ڈرگ ما فیا کیخلا ف گھیرا تنگ کردیا گیا

انسانی جا نوں سے کھیلنے والے ڈرگ ما فیا کیخلا ف گھیرا تنگ کردیا گیا

خالصتان  تحریک،ایک اور سکھ لیڈر کی جان کو خطرہ ،کنیڈین پولیس نے خبردار کردیا

خالصتان تحریک،ایک اور سکھ لیڈر کی جان کو خطرہ ،کنیڈین پولیس نے خبردار کردیا