01:18 pm
محسن پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یاد میں

محسن پاکستان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی یاد میں

01:18 pm

گزشتہ ماہ جب ڈاکٹر صاحب کراچی آئے تھے‘ توان سے ہماری ملاقات ہوئی تھی‘ یہ ملاقات سینیٹر عبدالحسیب خان نے کرائی تھی‘ ہمارے ساتھ’’ ہم پاکستان ‘‘کے رہنما  آصف رفیق بھی شامل تھے‘ ویسے تو میری ڈاکٹر صاحب سے اکثر عبدالحسیب کے گھر میں ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں‘ کبھی مشاعرے میں‘ یا پھر کبھی محفل غزل کی تقریب میں‘ انہیں اچھے اشعار اور اچھی موسیقی سننے کا بہت شوق تھا‘ اس کمی کو جناب سینیٹر عبدالحسیب خان پوری کردیاکرتے تھے‘ شاید یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سینیٹر صاحب ایک اچھے موسیقار اور گلوکارہیں۔ ڈاکٹر قدیر صاحب ان سے پرانے گیت سناکرتے تھے اور پرانے گیتوں کی فرمائش کیا کرتے تھے‘ مشاعروں میں وہ شعرا سے ترنم کے ساتھ غزلیں سننا پسندکرتے تھے‘ انہیں کینیڈا میں مقیم ذکیہ غزل کی شاعری اور ترنم دونوںبہت پسند تھے۔
 جیسا کہ میں نے بالائی سطور میں لکھاہے کہ ہماری یہ ملاقات سینیٹر صاحب نے کرائی تھی‘ ڈاکٹر صاحب اپنی ہمشیرہ کے گھر پر قیام کیا کرتے تھے‘ صبح کا وقت تھا موسم انتہائی خوشگوار تھا‘ سردی مائل ہوا چل رہی تھی‘ حالانکہ گزشتہ ماہ کراچی کاموسم خاصہ گرم تھا‘ ڈاکٹر صاحب نے اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا خیرمقدم کیا ۔ ویسے بھی وہ سینیٹر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتے تھے ‘ جن سے ان کی بھوپال سے تعلقات تھے‘ جب باتوں کاسلسلہ شروع ہوا تو میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کاسارا سہرا   بھٹو کو جاتاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب 1974ء میں بھارت نے پاکستان کی سرحدوں کے قریب راجستھان میں ایٹمی دھماکہ کیا‘ تومجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ پاکستان کو بھارت کے اس ایٹمی دھماکے کا جواب دیناچاہیے۔ چنانچہ سوال یہ پیدا ہوتاتھا کہ یہ مشکل ترین کام کون کرے گا؟ میں ہالینڈ میں ایک ایسے ادارے میں کام کررہاتھا جہاں یورینیم کی افزودگی کی جاتی تھی۔ میں اس ٹیکنالوجی سے واقف تھا‘ اس لئے میں نے بھٹو  کو ایک خط لکھا جس میں میں نے انہیں بتایا کہ میں یہ کام کرسکتاہوں۔ جب بھٹو  نے اس خط کو پڑھا تو انہیں یقین نہیں آیا کہ ایک نوجوان اتنا مشکل بلکہ ناممکن کام کیسے کرسکتاہے؟ تاہم انہوں نے مجھے ہالینڈ سے پاکستان آنے کی دعوت دی۔ پرائم منسٹر ہائوس میں ملاقات کے دوران میری اور  بھٹو کی ملاقات ہوئی جس میں میں نے انہیں بتایا کہ  میں اللہ کی مدد سے یہ کام کرسکتاہوں۔ بھٹو نے جب میرا اعتماد دیکھاتو انہیں یقین آگیاکہ یہ نوجوان یہ کام کرسکتاہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا کہ میری صرف ایک شرط تھی کہ میرے کام میں بیور و کریسی یا وزیر یا سفیر مداخلت نہیںکریں گے‘  بھٹو  نے اس سے اتفاق کیا اور مجھے نیوکلیئر پروگرام کا آغاز کرنے کی اجازت دیدی اور یہ بھی کہا کہ تمہیں روپے پیسے کے سلسلے میں کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی‘ مجھے یقین ہے کہ تم ضرورت کے تحت پیسہ خرچ کروگے اور اس پروگرام کو انتہائی مخفی رکھنا۔ میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیاہے‘ کوشش کروں گا کہ اس پر پورا اتروں۔ اس طرح کہوٹہ لیبارٹری میں میں نے چند بہترین سائنسددانوں کے ساتھ مل کر اس کام کو 1976ء میں شروع کیا اور بہت جلد ہم ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ درمیان میں بعض ملکوں کی جانب سے کہوٹہ لیبارٹری پرحملہ کرنے کی اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے ‘ لیکن اللہ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اور مکمل احتیاط کے ساتھ آگے کی جانب بڑھتے رہے اور اپنے مشن میں کامیاب وکامران ہوگئے۔ تھوڑے سے وقفے کے دوران میں نے پوچھا کہ اپنوں کی جانب سے کتنی رکاوٹیں پیداکی گئیں۔؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ اگر بھٹو صاحب مجھے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں مکمل اختیار نہیں دیتے تھے۔ تو شاید یہ پروگرام پائے تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ایک سابق چیئرمین ‘ جواب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں اور مبینہ طور پر امریکہ کے مفاد کے لئے کام کرتے تھے انہوں نے بھٹو  کو بدگمان کرنے کی بہت کوشش کی ‘ یہاں تک کہہ دیا کہ یہ نوجوان کچھ عرصے کا م کرنے کے بعد تمام پیسے لے کر بھاگ جائے گا‘ لیکن بعد میں جب میں اپنے مقصد میں کامیاب  ہوگیا تو یہی شخص مجھے مبارک باد دینے آیا۔ انہوں نے اپنی بات چیت میں غلام اسحاق خان اور جنرل ضیا الحق کی بھی بہت تعریف کی‘ جنہوں نے میری کاوش میں منزل مقصود تک پہنچانے میں میری بہت مدد کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا’’ اگر پاکستان کے پاس یہ ایٹم بم نہیں ہوتاتو بھارت کبھی کا پاکستان پر ایک اور کاری ضرب لگادیتا‘‘ جس طرح اس نے1971ء میں مشرقی پاکستان پرحملہ کرکے بنگلہ دیش بنادیاتھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے بڑی عاجزی سے کہا کہ’’ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو کامیاب بنانے میں یقینا  آپ کے کلیدی کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سارے منصوبے میں اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہیں ہوتی تو کامیابی ناممکن تھی‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے میری بات سے اتفاق کیا۔ وقت زیادہ ہوتاجارہاہے تھا‘ باتیں ختم نہیں ہورہی تھیں‘ وہ بہت کچھ کہناچاہتے تھے‘ اپنے سماجی پروگراموں سے متعلق خصوصیت کے ساتھ لاہور میں اسپتال کی تعمیرو توسیع سے متعلق لیکن کیونکہ کچھ اور لوگ ان سے ملناچاہتے تھے ‘ اس لئے ہم نے ان سے اجازت لی اور سینیٹرصاحب کے ساتھ باہر آگئے۔ ہمیں کیامعلوم تھا کہ ان سے ہماری یہ آخری ملاقات ہوگی۔ خدا مغفرت کرے۔  عجیب آزاد مرد تھا۔

تازہ ترین خبریں