01:20 pm
12 اکتوبر، سنسنی خیز انکشافات کا دِن

12 اکتوبر، سنسنی خیز انکشافات کا دِن

01:20 pm

٭12 اکتوبر1999ء کا انقلاب: نوازشریف، پرویز مشرف اور ساتھی جرنیلوں کا انجام، اہم انکشافات!!O سپریم کورٹ: سرکاری افسروںکی اولادوں کی وراثتی تقرریوں کا سخت نوٹسO مریم نواز، ایک اور شوگر ملز کے سکینڈل میں ملوثO آئی ایم ایف کا انتباہ، مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گاO پنجاب کے وزیر فیاض الحسن کی گاڑی غیر قانونی نقل حرکت، تھانے میں بندO سرگودھا: 1640 کلو ناقص چائے پکڑی گئیO مقبوضہ کشمیر، پانچ فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں پانچ کشمیری نوجوان شہید، 1400 نظربندO وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے 8 ارب روپے کا نیا طیارہ، 12 کروڑ کی نئی بلٹ پروف گاڑی 15 لگژری گاڑیاں پہلے ہی موجود، وزرا کے لئے 46 نئی گاڑیاں!
٭12 اکتوبر1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے اپنے چند ساتھی جرنیلوں کے ساتھ وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹا اور انہیں گرفتار کر کے مقدمہ میں سزائے موت دلائی تھی۔ یہ دونوں افراد اس وقت بیرون ملک مفرور مجرم کی حیثیت سے بے بس پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ قدرت کے فیصلے اور بدکرداری کا واضح انجام ہے۔ دونوں افراد اشتہاری قرار پا چکے ہیں۔ عدالتوںکو دھوکہ دے کر ملک سے فرار ہوئے، جائیدادیں ضبط اور نیلام ہو رہی ہیں، عمر بھر ملک میں واپس نہیں آ سکیں گے، آئے تو ہوائی اڈوں سے سیدھے جیل پہنچ جائیں گے! یہاں کچھ تذکرہ 12 اکتوبر کے جنرل مشرف کے انقلاب میں شریک چند جرنیلوں کا جو تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکے ہیں، ملک کے لوگ ان کے نام بھی بھول چکے ہیں۔ ان میں سے ایک گم گشتہ جرنیل، لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز نے 12 اکتوبر کے واقعات کے بارے میں ایک کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ لکھی اس میں بہت سے انکشافات ہیں۔ ایک اہم انکشاف کہ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر کو نوازشریف کی گرفتاری سے بہت پہلے ہی حکومت الٹنے کا مکمل منصوبہ بنا لیا تھا۔ یہاں اس واقعہ کے مختصر تذکرہ کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھی جرنیل کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ آیئے کتاب پڑھیں۔
٭کتاب کے مطابق 1999ء کے اوائل میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے حکومت کو مطلع کئے بغیر اچانک مقبوضہ کشمیرمیں سیاچن گلیشئر کے راستے میں واقع کارگل کی پہاڑی پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پاکستانی فوج کو بھارت کی بوفورس توپوں کی شدید گولہ باری سے سخت جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے فوجی محصور ہوگئے۔ وزیراعظم نوازشریف افراتفری کے عالم میں واشنگٹن گئے۔ اس روز امریکہ کے قومی دن کی چھٹی تھی۔ وائٹ ہائوس کا سارا سٹاف چھٹی پر تھا (وزیراعظم کو چائے اور کھانے سے انکار کر دیا گیا) امریکہ کے صدر نے نہائت بیزاری کے عالم میں نوازشریف کی بات سنی اور کارگل میں باقی ماندہ فوج بچ گئی۔
٭ان واقعات سے نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف میں سخت اختلافات شروع ہوئے اور دونوں ایک دوسرے کو فارغ کرنے کے منصوبوں میں مصروف ہو گئے۔ تفصیلات بار بار چھپ چکی ہیں کہ نوازشریف نے جنرل پرویز مشرف کو عین اس وقت برطرف کر دیا اور جنرل ضیاء الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنا دیا جب پرویز مشرف کا طیارہ سری لنکا سے واپس محو پرواز تھا۔ اس کے جواب میں جنرل مشرف کے ساتھی کچھ جرنیلوں نے جس انداز میں نوازشریف کو گرفتار، معزول اور پھر سزائے موت کے عدالتی فیصلے کرائے۔ وہ داستان بھی پرانی ہو گئی۔ یہاں صرف ان جرنیلوں کا مختصر تذکرہ کیا جا رہا ہے جنہوں نے اس کار نمایاں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں جنرل عزیز خاں،جنرل محمود احمد، جنرل شاہد عزیز،جنرل احسان الحق،جنرل مظفر عثمانی اور فوج کے کچھ اور اعلیٰ حکام شامل تھے۔ ان میں جنرل عزیز خاں راولپنڈی اور جنرل مظفر عثمانی کراچی کے کور کمانڈر، جنرل عزیز خاں چیف آف جنرل سٹاف، جنرل احسان الحق ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل شاہد عزیز آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ باقی جرنیلوں کے پاس بھی اہم عہدے تھے۔ یہ لوگ اب کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ جنرل پرویز مشرف نے ان لوگوں کے ساتھ وہی کچھ کیا جو ہر ڈکٹیٹر اقتدار پر آنے کے بعد اپنے پرجوش ساتھیوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ کسی مددگار جرنیل کو ملازمت میں توسیع نہیںدی بلکہ فوری طور پر جنرل محمود احمد اور جنرل عثمانی کو فارغ کر دیا۔ جنرل محمود احمد تبلیغی جماعت میں چلے گئے۔ جنرل شاہد عزیز نے کتاب لکھی، خود گم شدہ ہیں۔ جنرل عزیز خاں خاموش زندگی گزار رہے ہیں، کبھی کوئی انٹرویو نہیں دیا۔ ایک حسرت ناک انجام جنرل مظفر عثمانی کا کہ گزشتہ برس 2020ء میں اسی ماہ اکتوبر میں کراچی کی ایک سڑک پر اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر مردہ پائے گئے! کوئی تحقیقات نہیں ہوئی۔ کالم طویل ہو رہا ہے۔ اب دوسری باتیں!
٭ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو شہید کہا جا سکتاہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ کسی وبا کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والوں کو شہادت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ میں گزشتہ کالم میں ان کے رفیق کار ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات پر اظہار تحسین کیا تھا۔ آج ایک بہت اہم اور محترم نام حسین شیرازی کا لے رہا ہوں۔ شیرازی صاحب معروف مزاح نگار مصنف ہیں دو دلچسپ کتابیں ’بابو نگر‘ (چار ایڈیشن) اور ’دعوت شیراز‘ چھپ چکی ہیں۔ میرے بہت عزیز اور گہرے دوست ہیں۔ انہوں نے ایک ملاقات میںبہت اہم بات بتائی جس کا ڈاکٹر عبدالقدیر خاں شہید نے ان کی کتاب ’بابونگر‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے اور ان کے نام ایک خط میں بطور خاص ذکر بھی کیا۔ شیرازی صاحب محکمہ کسٹم کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 1974ء میں وہ محکمہ کسٹم میں اعلیٰ افسر تھے۔ ایک روز اچانک ڈاکٹر عبدالقدیر خاں آ گئے! اس سے اگلی بات خود ڈاکٹر صاحب کی زبانی پڑھئے۔ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں انتہائی خفیہ طور پر ایٹمی تیاریاں شروع کیں۔ اس بارے میں مختلف ممالک سے بظاہر عام سے مگر درحقیقت نہائت اہم آلات اور پرزے درآمد کرناپڑے۔ مختلف ممالک ہماری سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کر رہے تھے۔ میں اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر گیا۔ وہاں کسٹم افسر حسین شیرازی سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’وزارت دفاع کی طرف سے فرضی ناموں پر کچھ سامان آ رہا ہے، اسے کسی جانچ پڑتال کے بغیر فوری طور پر منزل پر پہنچا دیا جائے۔ حسین شیرازی بہت ذہین محب وطن افسر ہیں تھے۔ بہت کچھ سمجھ گئے۔ اور پھر یہی ہوا کہ جو بھی سامان آیا شیرازی صاحب کی نگرانی میں کسی جانچ پڑتال اور روک تھام کے بغیر فوری طور پر ہمارے پاس پہنچنے لگا۔ اس بارے ہم حسین شیرازی کے بہت ممنون ہیں۔‘‘ یہ بات تقریباً 47 برس پہلے کی ہے، اس دوران ڈاکٹر صاحب اور شیرازی صاحب دونوں ریٹائر ہو گئے۔ ان کے درمیان گہری رفاقت بڑھتی گئی۔ گزشتہ روزلاہور میں شیرازی صاحب سے فون پر بات ہوئی ان کی آواز لرز رہی تھی!
٭یوں لگتا ہے کہ مریم نواز اور شوہر صفدر کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ یہ میاں بیوی عارضی ضمانتوں پر رہا ہیں۔ مریم کو عدالت سے سات سال قیداور سات ارب روپے جرمانہ ہو چکا ہے۔ نیب نے احتساب عدالت میں 40 سے زیادہ صفحات کیایک درخواست دائر کی ہے کہ مریم نواز اور شوہرنے ضمانت کی شرائط کی صریح خلاف ورزی کی ہے، زہریلی باغیانہ تقریریں اور بیانات دیئے اور اب بھی دے رہی ہیں۔ انمیاں بیوی کی ضمانتیں منسوخ کی جائیں۔ کچھ قانونی ماہرین کے مطابق نیب کی درخواست میں دیئے جانے والے دلائل کی بنیاد پر کچھ بھی ہو سکتاہے جبکہ مریم نواز کے خلاف ایف آئی اے نے شمیم شوگر ملز کی نئی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ان کے مطابق مریم نواز نے یہ ملز ایک ارب 65 کروڑ روپے میں خریدی، پھر فروخت کر دی، خریداری کے لئے بنکوں سے 88 کروڑ روپے قرض لئے (باپ وزیراعظم تھا، قرضہ فوراً مل گیا)۔ نیب کے مطابق 36 کروڑ روپے کا قرضہ لیا گیا تھا۔ وہ تحقیقات کر رہی ہے کہ ملز خریدنے کے لئے ایک ارب 52 کروڑ کا باقی سرمایہ کہاں سے آیا؟

تازہ ترین خبریں