04:29 pm
عالمی یوم خوراک اور زمینی حقائق 

عالمی یوم خوراک اور زمینی حقائق 

04:29 pm

ہر سال 16 اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی یوم خوراک (World Food Day) منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی بیسویں جنرل کانفرنس میں نومبر 1945 میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اُس وقت کے ہنگری کے وزیر برائے خوراک و ذراعت پال رومنی (Pal Romany) نے یہ آئیڈیا دیا تھا کہ”عالمی یوم خوراک“ ہر سال منایا جائے۔ اُس وقت سے آج تک یہ دن ہر سال اکتوبر کی 16 تاریخ کو اقوام متحدہ کے جملہ رکن ممالک میں منایا جاتا ہے۔ تاریخ انسانی کا مطالعاتی جائزہ بتاتا ہے کہ ہر دور میں انسانوں کی بنیادی ضروریات کی کفالت اورخصوصاً خوراک کا مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات نے بعض تکوینی مصلحتوں کے تحت ہر انسان کی فطرت میں کچھ چیزوں کی احتیاج رکھ دی ہے۔ کھانا، پینا، پہننا، علاج معالجہ اور سرچھپانے کیلئے رہائش گاہ انسان کی وہ بنیادی ضروریات زندگی ہیں کہ اگر بقدر ضرورت میسر نہ ہوں تو انسان زیادہ دیر تک جسم و جان کا رشتہ قائم نہیں رکھ سکتا۔ اور اگر زندہ رہ بھی جائے تو اپنی ذہنی اور جسمانی نشوونما میں کمی کی وجہ سے صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
چونکہ یہ فطری اور طبعی مسئلہ ہے اس لیے زندگی کے ہر دور میں اس کی افادیت اور اہمیت ہمیشہ برقرار رہی۔ آج کے دور میں بھی اہم ترین مسائل میں سے ایک انسان کی خوراک کا مسئلہ ہے۔ بڑے بڑے سماجی مفکرین اور معاشی دانشور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اپنی بھرپور صلاحیتوں کو استعمال کر کے تگ و دو کرتے رہے اور ابھی تک مصروف عمل ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ 
چھان مارے ہیں فلسفے  سارے
دال روٹی ہی سب پہ بھاری ہے 
اِسی بنیادی مسئلہ کے حل اورانسان کی بنیادی ضرورتوں کی کفالت کا عزم لئے سوشل ازم، کیمونزم اور کیپیٹل ازم کی طرح کے معاشی نظام معرض وجود میں آئے۔ لیکن مسئلہ ہے کہ حل ہی نہیں ہو رہا۔ آج کا دور ترقی یافتہ اور مہذب دور کہلاتا ہے۔ تہذیب و ترقی سو بار مبارک۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایک طرف امیر ممالک کے اصحاب ثروت یاغریب ممالک کے امیرحکمرانوں اور اشرافیہ کی بے حساب دولت کا تخمینہ لگانے کیلئے چھوٹے موٹے کالکولیٹر بھی جواب دے جاتے ہیں لیکن اسی دھرتی پر افریقہ کے صحرائوں اور ایشیا کے میدانوں میں بھوک اورغربت و افلاس کی تباہ کاریاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ بچے، بوڑھے اور جوان دودھ، پانی اور خوراک کے لئے بلبلا رہے ہیں۔ اس خستہ حالی کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکے ہیں۔ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا ان کی کسمپرسی کی داستانیں ہر روز نشر کرتا ہے مگر مجال کہ تہذیب کے ان فرزندوں کا ضمیر بیدار ہو بلکہ امیروں کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں اسی طرح جاری و ساری ہیں اور غریب بھی اسی کشمکش میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ بہرکیف ہمیں ماننا پڑے گا کہ جدید ترین معاشی نظام اور نظریات انسانی بنیادوں پر، بلاتفریقِ مذہب و ملت کوئی معقول اور قابل قبول حل پیش نہیں کر سکے بلکہ حقائق گواہ ہیں کہ انسان کی ذہنی کاوشوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے معاشی اور اقتصادی نظاموں نے انسانیت کے اس ضروری مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے مزید الجھایا ہے اور وسائلِ زندگی سے محروم لوگوں کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ امیر ملک قومیت کی بنیاد پر اپنے شہریوں کو سہولیات مہیا کرتے ہیں کیونکہ ان ہی کے ووٹوں سے انہوں نے منتخب ہونا ہوتا ہے مگر دوسری طرف متوسط اور غریب ممالک کو آئی۔ ایم۔ ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں کے شکنجے میں پھنسا کر غلام بنایا جاتا ہے۔ بجائے عوام الناس کو سہولیات پہنچانے کے حکمرانوں پردبائو ڈال کر لوگوں کو مزید پریشان حال کیا جاتا ہے۔ آج امریکہ اور یورپ میں کئی کتب اور مضامین شائع ہو چکے ہیں جن میں اس حقیقت کو آشکارہ کیا گیا ہے کہ آئی۔ایم۔ایف اور ورلڈ بنک کے ذریعہ کس طرح اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے متوسط اور غریب ممالک کو غلامی کے شکنجے میں کسا جاتا ہے۔
ہم نہ تو بچگانہ طرز کی کوئی ضد کرتے ہیں اور نہ ہی متعصب ہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ غربت کے اس تشویشناک مسئلہ کا حقیقی حل اگر موجود ہے تو وہ اسلام کے معاشی اور فلاحی نظام میں ہے۔ تاریخ اسلام کے اوراق آج بھی گواہ ہیں کہ خلافت راشدہ،دور ِحضرت عمر بن عبدالعزیزؓ اور دیگر اسلامی ادوارمیں جب ان اصولوں کو معاشرے میں نافذ کیا گیا تو لوگ اپنے عطیات، زکوۃ اور صدقات گلیوں میں لے کر پھرتے تھے اور کوئی مستحق نہیں ملتا تھا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے فرمایا 
نکتہ شرع مبیں  ایں است  و  بس
کسے نہ باشد در جہاں محتاج کس
کہ اسلامی تعلیمات کا نکتہ اولیں یہ ہے کہ اس جہاں میں ہر انسان خود داری اور وقار کے ساتھ زندگی گزارے۔ کوئی کشکول لئے کسی کے سامنے ذلیل و رسوا نہ ہو رہا ہو اور نہ ہی بے بسی کے عالم میں کوئی انسان کسی کا محتاج ہو۔ اسلام میں بیت المال کے ذریعے غربا اور مساکین کی کفالت کا معقول اور قابل رشک اہتمام ہے۔ صاحب ثروت لوگوں کے مال میں غریبوں کا حق رکھ دیا گیا اور کئی طرح کے مالی فرائض اور واجبات عائد کئے گئے ہیں تاکہ معاشرے سے غربت کا خاتمہ۔ برطانیہ میں موجودہ سوشل سروسز کے نظام کی باضابطہ ترویج وزیراعظم کلیمنٹ ایٹ لی (Prime Minister Clement Attlee) کے دور حکومت (1945-1951) میں ہوئی۔ 22 اگست 2000 کے ایک مؤقر اخبار میں ایک نامور معاشی تجزیہ کار محمد احمد سبزواری صاحب اپنے مضمون ”غربت گھٹائو منصوبے“ میں لکھتے ہیں ”غربت کو ختم کرنے کی پہلی اینٹ حضرت عمر فاروق ؓ نے رکھی تھی۔ برطانیہ میں اس کا پہلا منصوبہ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ٹیلر نے بتایا جو اس وقت کے وزیراعظم (Clement Attlee) کے معاشی مشیر تھے اور انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے یہ تخیل اور منصوبہ بندی حضرت فاروق اعظمؓ سے اخذ کی ہے“ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سال میں صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر دن ہی ”یوم خوراک“ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے غریبوں پر خرچ کرنے والوں کو سات سوگنا تک لوٹانے کا وعدہ کیا (البقرہ۔261) نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ”جو پیٹ بھر کر سویا اور اس کا پڑوسی بھوکا رہا وہ ہم میں سے نہیں“(مشکوۃ کتاب الآداب حدیث نمبر4991) قسم توڑنے کی صورت میں بطور کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا (سورہ المائدہ آیت نمبر 89) جو روزہ نہ رکھ سکے مسکین کو کھانا کھلائے (البقرہ آیت نمبر 184) ۔ دوران حج کچھ غلطیوں پر جانور ذبح کر کے غریبوں میں بانٹنے اور کچھ پر صدقہ  کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب تک صدقہ فطر ادا نہ ہو روزے اور عبادات زمین و آسماں کے درمیان معلق رہیں گی (مسلم کتاب الزکوۃ حدیث نمبر2288)۔ اسی طرح ذرعی کاشت پر عشر۔ مال پر زکوٰۃ۔ بچے کی پیدائش پر عقیقہ۔ نومولود کے بالوں کی مقدار چاندی کا صدقہ وغیرہ غرباء کیلئے ہر روز کا ”یوم خوراک“ ہی تو ہے۔


تازہ ترین خبریں

ملک میں سردی سے پہلے ہی گیس کی قلت کا خدشہ

ملک میں سردی سے پہلے ہی گیس کی قلت کا خدشہ

حیدرآباد دکن میں موجود پاکستانی کرکٹ اسکواڈ کے کھانے کا مینیو بھی سامنے آگیا

حیدرآباد دکن میں موجود پاکستانی کرکٹ اسکواڈ کے کھانے کا مینیو بھی سامنے آگیا

گرمی سے پریشان نشئی کا انوکھا اقدام،اے ٹی ایم بوتھ لاک کرکے سو گیا

گرمی سے پریشان نشئی کا انوکھا اقدام،اے ٹی ایم بوتھ لاک کرکے سو گیا

ٹیکس اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس قائم،نگران وزیر خزانہ چیئرپرسن مقرر

ٹیکس اصلاحات کیلئے ٹاسک فورس قائم،نگران وزیر خزانہ چیئرپرسن مقرر

نئی حلقہ بندیوں سے قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں کم ہو گئیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

نئی حلقہ بندیوں سے قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں کم ہو گئیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں

عدالت نے ڈی سی اسلام آبادکی غیرمشروط معافی مستردکردی

عدالت نے ڈی سی اسلام آبادکی غیرمشروط معافی مستردکردی

عیدمیلاد النبی ﷺ پر لاہور سمیت ملک بھرمیں ابر رحمت برسنے کا امکان

عیدمیلاد النبی ﷺ پر لاہور سمیت ملک بھرمیں ابر رحمت برسنے کا امکان

’سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں‘؟ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

’سب اتنا ڈرے ہوئے کیوں ہیں‘؟ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس میں عملدرآمد سے متعلق رپورٹ طلب کرلی

’ پوتا پوتی پیسے گننے میں ہیرا پھیری کرتے تھے‘ 92 سالہ پردادی نے اسکول میں داخلہ لے لیا

’ پوتا پوتی پیسے گننے میں ہیرا پھیری کرتے تھے‘ 92 سالہ پردادی نے اسکول میں داخلہ لے لیا

توشہ خانہ  کیس  آصف علی زرداری  اور یوسف رضا گیلانی کو طلب کرلیا گیا

توشہ خانہ کیس آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کو طلب کرلیا گیا

آشوب چشم کا پھیلاؤ، ڈرگ مافیا انسانی جانوں کا دشمن بن گیا

آشوب چشم کا پھیلاؤ، ڈرگ مافیا انسانی جانوں کا دشمن بن گیا

بیورو چیف اے بی این نیوز خالد جمیل  کی ضمانت  منظور کر لی گئی

بیورو چیف اے بی این نیوز خالد جمیل کی ضمانت منظور کر لی گئی

انسانی جا نوں سے کھیلنے والے ڈرگ ما فیا کیخلا ف گھیرا تنگ کردیا گیا

انسانی جا نوں سے کھیلنے والے ڈرگ ما فیا کیخلا ف گھیرا تنگ کردیا گیا

خالصتان  تحریک،ایک اور سکھ لیڈر کی جان کو خطرہ ،کنیڈین پولیس نے خبردار کردیا

خالصتان تحریک،ایک اور سکھ لیڈر کی جان کو خطرہ ،کنیڈین پولیس نے خبردار کردیا