01:24 pm
جنوبی ایشیا کا ایک ادھورا خواب

جنوبی ایشیا کا ایک ادھورا خواب

01:24 pm

بنگلہ دیش کا مطلب بنگالیوں، مسلمانوں، ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی سرزمین ہے۔ خطے کی بڑی بندرگاہوں کو دیکھتے ہوئے جن میں مغربی بنگال میں کلکتہ، اور بنگلہ دیش میں چالنا اور چٹاگانگ شامل ہیں، یہ علاقہ خوراک اور دیگر ضروریات کی دائمی قلت کا سامنا کیے بغیر بذات خود ایک خوش باش اقتصادی علاقے کے طور پر موجود رہ سکتا ہے۔ اس خطے کی بہت سی اقوام، مغربی بنگال، بنگلا دیش، گورکھالینڈ، سکم، بھوٹان، میگھالیہ، بوڈولینڈ، ناگالینڈ، میزورم، آسام، تریپورہ اور منی پور میں موجود تاریخی اور نسلی حقائق کو دیکھا جائے، تو یہ سبھی اپنے آپ میں نہایت آزاد ہیں۔ حتیٰ کہ نیپال کی واحد ہندو مملکت بھی بھارت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے (جغرافیائی اور معاشی طور پر) زمین بند ہو جائے گی اور اسی وجہ سے ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا (AESSA) کے معاشی اتحاد کی رکنیت کے لیے متمنی ہوگی۔ یہ مؤثر جغرافیائی اور معاشی اکائیاں کسی کی بالادستی کے بغیر مشترکہ مارکیٹ بن سکتی ہیں۔ خلیج بنگال کی بندرگاہوں تک رسائی خاص طور پر سواحل سے محروم زمین بند علاقوں کے مفاد میں ہوگی، لیکن بندرگاہوں کی تعداد اور گنجائش میں جاری توسیع کا عمل بنگلہ دیش کے اپنے مفاد میں ہے۔ مزید برآں بنگلا دیش کو فراکا بیراج اور چھ دیگر کیچمنٹ ڈیموں کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے جو برسوں سے بھارت کے ساتھ تنازعے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ بھارتی ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو پانی سے متعلق کسی منصفانہ انتظام پر پہنچنے میں دستیاب سے زیادہ وقت لگے گا، اس لیے بنگلا دیش کو مدد کے لیے کہیں اور دیکھنا پڑے گا، اپنی مدد آپ کرنا شاید اس کا بہترین (اور واحد) طریقہ ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ خاص علاقہ ماضی میں بھی زراعت، مینوفیکچرنگ اور تجارت کا مرکز رہا ہے۔
ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کا مخفف ہے اور یہ تصور ایک اقتصادی یونین یا ان ریاستوں کی مشترکہ مارکیٹ کی تشکیل پر مبنی ہے جو اب تک جغرافیائی، سیاسی اور معاشی تنہائی کا شکار ہیں۔ ان ممالک کے مابین اندرونی تجارتی تعلقات کے ذریعے اس خطے کو کھولنا، اور اس خطے کو بی آر آئی کے نئے براعظمی تجارتی راستوں کے ساتھ ساتھ خلیج بنگال کے ارد گرد سمندری تجارتی راستوں سے جوڑنا اس آئیڈیا کا نچوڑ ہے۔ یہ آئیڈیا 1980 کی دہائی کے دوران تیار کیا گیا اور پہلی بار مارچ 1990 میں شائع ہوا۔ اُس وقت اس تصور نے کچھ زیادہ ارتعاش پیدا نہیں کیا۔ لیکن آج، 30 سال بعد، ہم ایک بالکل مختلف دنیا کو دیکھ رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن پختہ ہو چکی ہے اور جنگ عظیم دوم کے بعد سیاسی طاقت کی تقسیم دو قطبی دنیا سے بدل کر، ایک بدترین سرد جنگ کے منظر نامے میں پھنس کر، امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے ساتھ اب یک قطبی دنیا میں بدل گئی ہے، جو خود کو عالمی پولیس مین سمجھتا ہے۔ یہ مختصر مرحلہ چین کے عروج کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا ہے، اور کثیر قطبیت پر مبنی طاقت کا ایک نیا عالمی سیاسی نظام وضع کرتے ہوئے امریکہ کو معاشی، عسکری اور نظریاتی میدان میں چیلنج کر رہا ہے۔
ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کے موضوع پر میں نے 1997میں لکھا تھا ’’ایسوسی غیر مساوی شراکت داروں پر مشتمل ہوئی تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی۔ اس کے موجودہ حجم کے مطابق اور جارحانہ دفاعی انداز سے بھارت اپنے پڑوسیوں کے لیے مستقل خطرہ رہے گا۔ اس صورت میں بننے والے فورم یا رشتے دیر پا ثابت نہیں ہوں گے جیسا کہ اس وقت پاکستان کو درپیش صورت حال ہے۔   اقتصادی اصول اور جغرافیائی قربت کی بنیاد پر کنفڈریشن کے قیام اور نیم علاقائی گروہ بندیوں کی تجویز سے بھارت کو پورے خطے کے لیے زیادہ جامع تجاویز سامنے لانے کا موقع ملا ہے۔   بھارتی وزیر اعظم دیوی گوڑا کی کابینہ کے وزیر خارجہ اندر کمار گجرال نے جنوبی ایشیا کی مشرقی ریاستوں کے لیے معیشت اور جغرافیائی قربت کے بیان پر ایسے گروپ بنانے کی تجویز پیش کی تھی جسے ’گجرال ڈاکٹرائن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں بنگلا دیش، نیپال، بھوٹا اور ان کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھنے والے بھارت کا گروپ تشکیل دینے کی بات کی گئی تھی۔ البتہ اس میں بھارت کی مشرقی ریاستوں اور بالخصوص بنگلا دیش اور آسام کے مابین کافی سفری ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کئی دشواریاں تھیں۔ بھارت مسلسل اس خطے کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر نظر انداز کررہا ہے۔ اس خطے میں تیل، لکڑی، چائے سمیت مختلف قدرتی وسائل کے ساتھ کم و بیش وہی برتاؤ کررہا ہے جو برطانوی نوآبادیات کے دور میں کیا جاتا تھا۔ ان پالیسیوں پر عوامی غیض و غضب کو قابو میں لانے کے لیے نصف دہائی سے بھارت یہاں طاقت کا بے دریغ استعمال کررہا ہے۔ بنگلا دیش کے قیام کے بعد ان ریاستوں میں چلنے والی گوریلا تحریکوں کو دھچکا لگا تھا لیکن اب وہ دوبارہ پوری طرح فعال ہیں۔ یہ علاقہ جغرافیائی طور پر اتنا کٹا ہوا ہے کہ  1962میں چین اور بھارت کی جنگ سے قبل اس میں کسی انتظامی ڈھانچے کا وجود ہی نہیں تھا۔ چین کے اس علاقے میں آنے کے بعد بھارت نے بہت سی تبدیلیاں کیں۔ بھارت اس علاقے میں براہ راست رسائی کے لیے ایک بڑی نہر بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ یہ مجوزہ نہر بنگلا دیش کے درمیان میں سے گزرے گی۔ اس کی وجہ سے بنگلا دیش عملا دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ بنگلا دیش میں حکمران عوامی لیگ کی بھارت سے قربت کے باوجود یہ منصوبہ بنگلا دیش کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ کیوں کہ عوامی لیگ بھی بنگلادیشی عوام میں بھارت کے لیے بڑھتی ہوئی ناپسندیدگی کو ہوا دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ گجرال نے اپنی تجویز کے حق میں فطری ہم آہنگی کی دلیل پیش کی تھی وہ کسی مصنوعی اتحاد و اشتراک کی بات نہیں کررہے تھے۔ اس دلیل کا توڑ اسی وقت ممکن ہے جب ان ریاستوں کے مابین کوئی مصنوعی ڈھانچہ یا رشتہ قائم کردیا جائے۔ نیپال اور بھوٹان کے پن بجلی گھر ممکنہ طور پر بنگلا دیش کو سستی بجلی فراہم کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خشکی سے گھری بھارت کی مشرقی ریاستوں آسام، میگھالیہ، مزورام ، ناگالینڈ اور تریپورہ وغیرہ کو چٹاگانگ اور چھلنا کی بندرگاہوں تک براہ راست سڑک یا ریل کی پٹڑی کے ذریعے رسائی بھی دی جاسکتی ہے۔‘‘
امریکہ اور نیٹو کے افغانستان سے انخلا نے خطے میں نئے اتحاد بنانے کی راہیں کھول دی ہیں۔ اس میں خاص طور معیشت کو فوقیت حاصل ہوگی۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے تحت عالمی سطح پر رسل و رسائل کا ایک ایسا جال بچھانے کا منصوبہ ہے جو 70ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ اسے اکیسویں صدی کی شاہراہِ ریشم بھی کہا جاتا ہے۔ یہ انڈوپیسفک کے راستوں پر مبنی وہی تجارتی گزرگاہ ہے جو جنوب مشرقی ایشیا سے جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور افریقہ تک پھیلی ہوئی ہے۔ اسی خطے میں بنگلا دیش کی مرکزی حیثیت کے ساتھ ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کا تصور پوری طرح موزوں ہے۔  
خلیج بنگال اپنے دور کی سب سے بڑی معاشی سرگرمیوں کی تجارتی گزرگاہ تھی۔ مغربی اور مشرقی اقوام شمال و جنوب اور جنوب شمال کی اس راہداری میں سرمایہ کاری کرکے اس کی معاشی سرگرمیوں کے حصے دار بن سکتے ہیں۔ یہی اپنے اپنے ممالک میں عوام کی فلاح کے لیے سب کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے صرف بھارت کے مشرقی کنارے اور برما کی ریاستیں مستفید نہیں ہوں گی بلکہ  یہ خطے میں معاشی سرگرمیوں کو کئی گنا بڑھا دے گی۔ اس لیے دنیا کے لیے ضروری ہے کہ ایسوسی ایشن آف ایسٹرن اسٹیٹس آف ساؤتھ ایشیا کو اس خطے کے عوام کی خوش حالی اور تجارتی فروغ کے ذریعے کے طور پر دیکھے۔ (کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی کونسل فور فارن افیئرز کے چیئرمین اور قائد ہاؤس میوزیم میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف نیشن بلڈنگ کے بورڈ آف مینجمنٹ کے نائب چیئرمین بھی ہیں) 

تازہ ترین خبریں